✍️مرد اگر شادی تاخیر سے بھی کرے تو کچھ صورتوں میں اسے زیادہ فرق نہیں پڑتا

لیکن لڑکی کی شادی میں زیادہ تاخیر ہوجائے تو وہ اپنے شوہر کو وہ پیار وہ ادائیں اور شوخ پن نہیں دے سکتی جوکہ ایک نارمل عمر کی لڑکی اپنے شوہر کو دے سکتی ہے شاید اس کی وجہ وقت کے تھپیڑے لوگوں کے رویے اور تجربات ہیں جو لڑکی کی عمر نکلنے کے ساتھ ساتھ اس کی شوخ ادائیں اور چنچل رویے چھین لیتے ہیں اور وہ صرف ایک سمجھوتے کا مینار بنی رہ جاتی ہے جسکا من مر چکا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔

لفظ تلخ ضرور ہے لیکن حقیقت ہے

عورت کو صرف ہمبستری پے خوش کرنا مردانگی نہیں۔

مرد کی مردانگی پر بات کی تو سب مسکرانے لگتے ہیں ۔۔!!

یہ ایک حقیقی فعل ہے اور ہر انسان کو اس لمحہ سے عمل پیرا ہونا ہے ۔۔۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ
عورت کو صرف ہمبستری پے خوش کرنا مردانگی نہیں مرد کی مردانگی تو وہ ہے کہ مرد اپنے سے وابستہ عورت کے جذبات، احساسات، خواہشات اور ضروریات کی تسکین کرنا بھی جانتا ہو…
بہت بار یہ لطیفہ آپ کے کانوں سے بھی گزرا ہوگا کہ “چھ بچوں کی ماں کہتی ہے کہ مجھے آج تک پیار نہیں ملا” سننے میں تو کافی مُذاقیہ خیز بات لگتی ہے لیکن اس میں ایک تلخ حقیقت چھپی ہوئی ہے… “کیا آج کا مرد یہ سمجھتا ہے کہ جنسی تسکین اور لذت سے ہی عورت کو درکار ساری محبت اور جذبات کی تسکین ہو جاتی ہے”
کیا افزائش نسل کر لینا محبت کے زمرے میں آتا ہے۔۔۔؟

ایک بادشاہ جس کی ملکہ بہت خوبصورت تھی۔ بادشاہ کی شادی بڑی دھوم دھام سے ہوئی بادشاہ حسبِ عادت اپنی نئی ملکہ کے ساتھ کچھ روز تو بہت خوش رہا پھر اسے بھی محل کے سامان کی طرح کمرے میں رکھ کر بھول گیا۔ وہ سارا سارا دن راہداریوں میں بولائی بولائی پھرتی لیکن بادشاہ تو بادشاہ ٹھہرا۔ وہ یہ جب بھی سفر پر نکلتا اپنی ملکہ کو لوہے کا زیر جامہ پہنا دیتا اور چابی جیب میں ڈال کر رخصت ہو جاتا۔ وہ سارا دن کمرے کی کھڑکی میں لوہے کا لباس پہنے گزار دیتی، تنہائی اس کے جسم کو گھلانے لگی تھی۔ محل کی دیواریں اس کے حالِ دل سے واقف تھیں اس لیے جلد ہی اس کی تنہائی میں نقب لگ گئی۔ محل کا وزیر اس ملکہ کی تنہائی بانٹنے لگا، وہ دونوں گھنٹوں کھڑکی کے آمنے سامنے کھڑے ہو کر باتیں کرتے دونوں کی غم خواری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ لوہے کا لباس تھا جس کی چابی بادشاہ کے پاس تھی۔ وزیر چونکہ باتدبیر تھا اس لیے اس نے کسی طریقے سے لباس کی چابی بنوا لی۔ ملکہ کی تنہائی کی دیوار اب ٹوٹ چکی تھی اور بھولا بادشاہ اپنی شکارگاہ میں مست ہرنوں کو پکڑنے میں ہی مصروف رہا۔

کہنے کو یہ دیومالائی قصہ ہے لیکن حقیقت سے اس کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ آج بھی ایسے بے شمار بادشاہ سلامت موجود ہیں اور ایسی ہی ملکائیں اور وزیروں کا ٹولا بھی آپ کو کہیں نا کہیں دکھائی ضرور دے گا۔ کسی کی تنہائی میں نقب لگانا تبھی آسان ہوتا ہے جب گھر والے آنکھیں رکھتے ہوئے بھی اندھے ہوں۔ ہم کس منہ سے سنت نبویﷺ کی بات کرتے ہیں جب کہ ہم آپﷺ کی زندگی سے کوئی ایک بھی سبق سیکھنے کے قابل نہیں ہیں۔
بلاشبہ ایسی تمام عورتیں سزا کی مستحق ہیں جن کی وفاداریاں اپنے شوہروں کے ساتھ نہیں لیکن تھوڑی دیر کے لیے رک کر کبھی کسی نے یہ سوچنے کی زحمت کی کہ عورت کا یہ سفاک چہرہ کیوں ایسا بنا۔ وہ کون سے عوامل تھے جن کے سبب وہ گمراہی کی اتھاہ گہرائیوں میں گری۔ کیا ہمارے مرد پورے مرد ہیں؟

کیا ان کی وفاداریاں اپنی بیویوں سے ہی وابستہ ہیں؟

جس شوہر کے پاس اپنی بیوی کے بجائے غیر محرم ,طوائفوں کے لیے محبت و احساس کے لفظ و جذبات ہوں اور بیوی کے لیے طویل خاموشی، اسے یا تو خود مر جانا چاہیے یا اپنی عورت کو آزاد چھوڑ دینا چاہیے۔۔۔۔!!!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *