اعمالِ شفاء – لازوال حافظہ بے مثال یادداشت
طریقہ عمل:
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ میرے ماں باپ آپ ﷺ پرقربان ہوجائیں‘ قرآن پاک میرے سینے سے نکل جاتا ہے جو یاد کرتا ہوں وہ محفوظ نہیں رہتا۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں تجھے ایسی ترکیب بتلاؤں کہ جو تجھے نفع دے اور جس کو تو بتلادے اُس کیلئے بھی نافع ہو اور جو کچھ تو سیکھے وہ محفوظ رہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دریافت کرنے پر حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب جمعہ کی شب آئے تو اگر یہ ہوسکتا ہو کہ رات کے آخر تہائی حصہ میں اُٹھے تو یہ بہت ہی اچھا ہے کہ یہ وقت ملائکہ کے نازل ہونے کا ہے اور دعا اس وقت میں خاص طور سے قبول ہوتی ہے۔ اسی وقت کے انتظارمیں حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے کہا تھا سوف استغفرلکم ربی (سورۂ یوسف آیت 98) ’’عنقریب میں تمہارے رب سے مغفرت طلب کروں گا‘‘ ( یعنی جمعہ کی رات کے آخری حصہ میں) پس اگر اس وقت میں جاگنا دشوار ہو تو آدھی رات کے وقت اور یہ بھی نہ ہوسکے تو پھر شروع ہی رات میں کھڑا ہو اور چار رکعت نفل اس طرح پڑھے کہ پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ یٰسین شریف پڑھے اور دوسری رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ دخان اور تیسری رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ الم سجدہ (ترتیب قرآنی میں یہ سورت پہلی دونوں سورتوں سے مقدم ہے مگر اول تو نوافل میں فقہاء نے اس قسم کی گنجائش فرمائی ہے دوسرے نوافل کا ہر شفعہ مستقل نماز کا حکم رکھتا ہے اور اس شفعہ کی دونوں سورتیں آپس میں مرتب ہیں اس لیے کوئی کراہت نہیں۔ ہکذافی الکوکب الدری ) اور چوتھی رکعت میں فاتحہ کے بعد سورۂ ملک پڑھے اور جب التحیات سے فارغ ہوجائے تو اول حق تعالیٰ شانہٗ کی خوب حمدو ثناء کر اس کے بعد مجھ پر درود سلام بھیج‘ اس کے بعد تمام انبیاء علیہم السلام پر درود بھیج اس کے بعد تمام مومنین کیلئے اور ان تمام مسلمان بھائیوں کیلئے جو تجھ سے پہلے مرچکے ہیں استغفار کر۔
حمد و ثناء، درود شریف اور تمام مومنین کیلئے دعا:
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ عَدَدَ خَلْقِہٖ وَرِضَا نَفْسِہٖ وَزِنَۃَ عَرْشِہٖ وَمِدَادَ کَلِمٰتِہٖ اَللّٰھُمَّ لَا اُحْصِیْ ثَنَآئً عَلَیْکَ اَنْتَ کَمَا اَثْنَیْتَ عَلٰی نَفْسِکَ اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِکْ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدِ نِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الْھَاشِمِیِّ وَعَلٰی اٰلِہٖ وَاَصْحَابِہِ الْبَرَرَۃِ الْکِرَامِ وَعَلٰی سَائِرِ الْاَنْبِیَآئِ وَالْمُرْسَلِیْنَ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ الْمُقَرَّبِیْنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّکَ رَؤُوْفٌ رَّحِیْمٌ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِجَمِیْعِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ اِنَّکَ سَمِیْعٌ مُّجِیْبُ الدَّعَوَاتِ۔
حدیث کی دعا یہ ہے:اَللّٰھُمَّ ارْحَمْنِیْ بِتَرْکِ الْمَعَاصِیْ اَبَدًا مَّا اَبْقَیْتَنِیْ وَارْحَمْنِیْ اَنْ اَتَکَلَّفَ مَالاَ یَعْنِیْنِیْ وَارْزُقْنِیْ حُسْنَ النَّظَرِ فِیْمَا یُرْضِیْکَ عَنِّیْ اَللّٰھُمَّ بَدِیْعَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ ذَاالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ وَالْعِزَّۃِ الَّتِیْ لَاتُرَامُ اَسْئَلُکَ یَااَللہُ یَارَحْمٰنُ بِجَلَالِکَ وَنُوْرِ وَجْھِکَ اَنْ تُلْزِمَ قَلْبِیْ حِفْظَ کِتَابِکَ کَمَا عَلَّمْتَنِیْ وَارْزُقْنِیْ اَنْ اَقْرَاَہٗ عَلَی النَّحْوِ الَّذِیْ یُرْضِیْکَ عَنِّیْ اَللّٰھُمَّ بَدِیْعَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ ذَاالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ وَالْعِزَّۃِ الَّتِیْ لَاتُرَامُ اَسْئَلُکَ یَااَللہُ یَارَحْمٰنُ بِجَلَالِکَ وَنُوْرِ وَجْھِکَ اَنْ تُنَوِّرَ بِکِتَابِکَ بَصَرِیْ وَاَنْ تُطْلِقَ بِہٖ لِسَانِیْ وَاَنْ تُفَرِّجَ بِہٖ عَنْ قَلْبِیْ وَاَنْ تَشْرَحَ بِہٖ صَدْرِیْ وَاَنْ تَغْسِلَ بِہٖ بَدَنِیْ فَاِنَّہٗ لَایُعِیْنُنِیْ عَلَی الْحَقِّ غَیْرُکَ وَلَایُؤْتِیْہِ اِلَّآ اَنْتَ وَلَا حَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ۔
پھر حضور اقدس ﷺ نے ارشادفرمایا کہ اے علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ) اس عمل کو تین جمعہ یا پانچ جمعہ یا سات جمعہ کر‘ انشاء اللہ دعا ضرور قبول کی جائے گی۔ قسم ہے اس ذات پاک کی جس نے مجھے نبی بنا کر بھیجا ہے کسی مومن سے بھی قبولیت دعا نہ چوکے گی۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ علی کرم اللہ وجہہ کو پانچ یا سات ہی جمعہ گزرے ہوں گے کہ وہ حضور ﷺ کی مجلس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہ ﷺ پہلے میں تقریباً چار آیتیں پڑھتا تھا اور وہ بھی مجھے یاد نہ ہوتی تھیں اور اب تقریباً چالیس آیتیں پڑھتاہوں اور ایسی ازبر ہوجاتی ہیں کہ گویا قرآن شریف میرے سامنے کھلا ہوا رکھا ہے اور پہلے میں حدیث سنتا تھا اور جب اس کو دوبارہ کہتا تھا تو ذہن میں نہیں رہتی تھی اور اب احادیث سنتا ہوں اور جب دوسروں سے نقل کرتا ہوں تو ایک لفظ بھی نہیں چھوٹتا۔